Sunday, November 24, 2013

منزلوں کو پا لینا کتنی بڑی قیامت ہے۔

منزلوں کو پا لینا کتنی بڑی قیامت ہے۔ سب کچھ بے معنی ہو کر رہ جاتا ہے۔ خود منزل بھی۔ مجھے ایسے لگتا ہے جسے طلب سے عظیم تر کوئی منزل نہیں۔ طلب اور جدوجہد۔ شاہد یہ بشریت کا تقاضا ہو۔

رسمی محبت

حقیقی آدمی ، رسمی محبت کر نہیں سکتا ___!۔

خاموشی


بعض دفعہ خاموشی وجود پر نہیں دل پر اترتی ہے پھر اس سے زیادہ مکمل، خوبصورت اور بامعنی گفتگو کوئی اور چیز نہیں کر سکتی اور یہ گفتگو انسان کی ساری زندگی کا حاصل ہوتی ہے اور اس گفتگو کے بعد ایک دوسرے سے کبھی دوبارہ کچھ کہنا نہیں پڑتا ۔ ۔ ۔ کچھ کہنے کی ضرورت رہتی ہی نہیں ۔ ۔ ۔

چیزیں حیثیت نہیں رکھتیں

چیزیں حیثیت نہیں رکھتیں، انسان بھی نہیں رکھتے، اہم ہوتے ہیں رشتے جب ہم سے چیزیں چھین لی جائیں تو دل ڈوب، ڈوب کے ابھرتا ہے مگر جب رشتے کھو جائیں تو دل ایسا ڈوبتا ہے کہ ابھر نہیں سکتا، سانس تک رک جاتی ہے پھر زندگی میں کچھ اچھا نہیں لگتا۔

درویش

پرندہ بن کر ُاڑو گے تو نئے ارض و سما دیکھو گے۔ روشنی بن کر پھیلو گے تو نئے زمانہ و زمن دیکھو گے۔۔۔خوشبو بن کر بکھرو گے تو نت نئے ثمر و چمن دیکھو گے۔۔۔پرندے کا کام اُڑنا،روشنی کا کام پھیلانا اور خوشبو کا کام بکھرنا ہے۔ درویش۔۔۔پرندے،روشنی اور خوشبو کی مانند ہوتا ہے۔۔۔جنہیں درگاہوں کی گھٹن راس نہیں آتی, وہ جہانوں کی شاہراہوں پہ نکل جائیں۔۔۔۔کہتے ہیں کہ سوار سے زیادہ پیادہ حاصل کرتا ہے۔۔راستوں کا سواد بھی اور منزل کا ثمر بھی۔۔۔

ﻓﺎﺻﻠﮯ

ﮐﺒﮭﯽ ﮐﺒﮭﯽ ﮨﻢ ﻓﺎﺻﻠﮯ ﭘﯿﺪﺍ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺩﻭﺭ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﮭﺎﮔﺘﮯ ،ﺑﻠﮑﮧ ﺍﺱ ﻟﯿﮯ ﺑﮭﺎﮔﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﺩﯾﮑﮭﮯ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﮐﻮﻥ ﺁﺗﺎ ﮨﮯ

بچے کی جیب

جس دن بچے کی جیب سے فضول چیزون کے بجائے پیسے بر آمد ہون تو سمجھ لینا چاہیے کے اب اسے بی فکر کی نیند کبہی نصیب نہین ہوگی.

زندگی رُک نہیں جاتی

زندگی کی پہلی شرط زندہ رہنا ہے۔ کسی کے ہونے نہ ہونے سے زندگی رُک نہیں جاتی۔ چلتی رہتی ہے اکثر وہ لوگ جن کو ہم اپنی زندگی کے لیے ناگزیر جانتے ہیں۔ اچانک بغیر کسی بڑی وجہ کے ہم سے دور چلے جائیں یا ہو جائیں۔ زندگی پھر بھی نہیں رکتی ، تھوڑی دشوار لگتی ہے مگر تمام تو نہیں ہوتی

ﺳﮑﮫ ﮐﯽ ﺳﯿﺎﮨﯽ

 ﺳﮑﮫ ﮐﯽ ﺳﯿﺎﮨﯽ
ﮐﭽﮫ ﻟﻮﮒ ﺍﭘﻨﯽ ﺗﻘﺪﯾﺮ ﻣﯿﮟ ﺻﺮﻑ ﺩﺭﺩ ﮨﯽ ﻟﮑﮭﻮﺍ ﮐﺮ ﻻﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺳﮑﮫ ﮐﯽ ﺳﯿﺎﮨﯽ ﺷﺎﯾﺪ ﺍﻧﮑﯽ ﺑﺎﺭﯼ ﺁﻧﮯ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﮨﯽ ﺧﺸﮏ ﮨﻮ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ 

صفحات پہ لکھنا

زندگی میں بعض چیزوں کو صفحات پہ لکھنا جتنا آسان ہوتا ہے، حقیقی زندگی میں ان پر عمل کرنا اتنا ہی مشکل ہوتا ہے ۔ بعض الفاظ جب حقیقت کا لبادہ اوڑھ کر مجسم سامنے آئیں تو ان کو دیکھنے سے ہی آنکھیں جلنے لگتی ہیں ۔ ان کو چھو کر محسوس کرنا تو بہت دور کی بات ہے۔

Monday, November 11, 2013

یہ جو زندگی کی کتاب ہے

یہ جو زندگی کی کتاب ہے،
یہ کتاب بھی کیا کتاب ہے
کہیں اک حسین خؤاب ہے
کہیں جان لیوا عزاب ہے

کبھی کھو لیا، کبھی پا لیا،
کبھی رو لیا کبھی گا لیا
کہیں رحمتوں کی ہیں بارشیں،
کہیں تشنگی بے حساب ہے

کہیں چھائوں ہے کہیں دھوپ ہے،
کہیں اور ہی کوئی روپ ہے
کہیں چھین لیتی ہے ہر خؤشی،
کہیں مہربان بے حساب ہے
یہ جو زندگی کی کتاب ہے،
یہ کتاب بھی کیا کتاب ہے

Sunday, November 10, 2013

سرچ لائٹ

کتابیں بلاشبہ سرچ لائٹ ہیں. اگر یہ سرچ لائٹ ایک خاص زاویے سے راستے پر ڈالی جاۓ..تو عمل کا راستہ آسان اور منور ہو جاۓ گا.لیکن محض سرچ لائٹ پر آنکھیں گاڑ دینے سے بینائی کمزور ہو جاۓ گی.اور عمل بھی منقود ہو جاۓ گا -

زندگی کی تلخیاں

زندگی کی تلخیاں ،آدمی کی زندگی میں وہ ہی حثیت رکھتی ہیں،جو سونے چاندی کو تپانے کے لیے کیا جاتا ہے۔تپانے کا عمل جس طرح سونے چاندی کو نکھارتا ہے۔اسی طرح تلخ تجربات آدمی کی اصلاح کرتے ہیں اور انسانوں میں چمک پیدا کر دیتے ہیں۔ان کی شخصیت میں نکھار پیدا ہو جاتا ہے ۔اس لیے دل برا نہیں کرتے۔‘

Wednesday, November 06, 2013

جسے اللہ تعالی اپنی محبت دیتا ہے اسے پھر کسی اور چیز کی خواہش نہیں ہوتی۔۔

جسے اللہ تعالی اپنی محبت دیتا ہے اسے پھر کسی اور چیز کی خواہش نہیں ہوتی۔۔

گھر ہمیشہ مہربانیوں سے لٹتے ہیں۔

گھر ہمیشہ مہربانیوں سے لٹتے ہیں۔نیء محبتوں سے اجڑتے ہیں۔ایسی مہربانیاں جو گھر کو دیمک کی طرح چاٹ جاتی ہیں۔ایسی مہربانیاں جو ماں سے زیادہ چاہ کر کی جاتی ہیں۔جب کویءچاہنے والا گھر کے ایک فرد کی انا کو جگا کر اسے وہ سارے مظالم سمجھاتا ہے جو گھر کے دوسرے فرد اس پر کرتے رہے ہوتے ہیں۔وہ ان ساری لڑاءیوں کے ڈھکے چھپے معنی واضح کر دیتا ہے تو گھر کی پہلی اینٹ گرتی ہے۔گھر کی ایک ایک اینٹ محبت سے اکھاڑی جاتی ہے۔ہر چوگاٹ،ہر دہلیز چوم چوم کر توڑی جاتی ہے۔جب باہر کا چاہنے والا لفظوں میں شیرینی گھول کر گھر والوں کے خلاف بہکاتا ہے تو پھر کویء سالمیت باقی نہیں رہتی۔کیونکہ ہر انسان کمزور لمحوں میں خود ترسی کا شکار رہتا ہے وہ اس بات کی تصدیق میں لگا رہتا ہے کہ اس پر مظالم ہوےء اور اسی لیےء وہ ظلم کرنے میں حق بجانب ہے۔

زندگی کی گاڑی

ہم سب لوگ زندگی کے راستے پر گاڑیوں پر سفر کرنے والے لوگ ہیں- اس راستے پر سفر کرتے بہت دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ کبھی کسی گاڑی کا ٹائر پنکچر ہو جاتاہے اور کبھی کوئی گاڑی سڑک سے اتر جاتی ہے- بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ گاڑی سڑک پر موجود کسی گڑھے میں پھنس جاتی ہے- اس وقت اس سڑک پر سفر کرنے والی دوسری گاڑیوں میں سے کسی نہ کسی کو اس گاڑی کے پاس روک جانا چاہیے اور دیکھنا چاہیے کہ دوسرے کی گاڑی کو کس طرح سڑک پر واپس لایا جا سکتا ہے یا گڑھے میں سے نکالا جا سکتا ہے- اس وقت چند لمحوں کے لیے ہمارا اپنا سفر روک کر وہاں رک جانا دوسرے کو ٹریک پر لے آتا ہے اور ایسا نہ کرنے کی صورت میں دوسرے کی گاڑی ہمیشہ اس گڑھے میں پھنسی رہتی ہے-

نم آنکھیں

رونے میں کوئی برائی نہیں یے۔ نم آنکھیں‘ نرم دل ہونے کی نشانی ہیں اور دلوں کو نرم ہی رہنا چاہیے۔ اگر دل سخت ہو جائیں تو پھر ان میں پیار و محبت کا بیچ نہیں بویا جا سکتا اور اگر دلوں میں محبت ناپید ہو جائے تو پھر انسان کی سمت بدلنے لگتی یے۔ محبت وہ واحد طاقت ہے جو انسان کے قدم مضبوتی سے جما دیتی ہے اور وہ گمراہ نہیں ہوتا...۔"
بس ان آنسوؤں کے پیچھے ناامیدی اور مایوسی نہیں ہونی چاہیے۔ کیونکہ ناامیدی ایمان کی کمزوری کی علامت ہوتی یے۔ اللہ سے ہمیشہ بھلائی اور اچھے وقت کی آس رکھنی چاہیے۔ وہ اپنے بندوں کو اسی چیز سے نوازتا یے جو وہ اپنے اللہ سے توقع کرتے ہیں۔

وقت کے پر

وقت کو پر نہیں لگتے بلکہ بعض دفعہ وقت بالکل رُک بھی جاتا ہے ۔ اس کی تیز رفتاری ہی صبر آزماء نہیں ہوتی ، بعض دفعہ اس کی سست روی بھی تکلیف دہ ہوتی ہے -

الفاظ کبھی بھی انسان کو اس کا کھویا ہوا مقام واپس نہین دلا سکتے

الفاظ کبھی بھی انسان کو اس کا کھویا ہوا مقام واپس نہین دلا سکتے

وضاحت کبھی سچا ثابت نہیں کر سکتی، ندامت کبھی نعم البدل نہیں ہو سکتی.

زہر

سانپ کا زہر کینچلی میں اور بچھو کا دم میں ہوتا ہے۔ ۔ ۔بھڑ کا زہر ڈنک میں ہوتا ہے اور پاگل کتے کا زبان میں۔ ۔ ۔
انسان واحد حیوان ہے جو اپنا زہر دل میں رکھتا ہے۔

کوئی پوچھے


کبھی کبھی بڑی شدّت سے جی چاہتا ہے کہ کوئی پوچھے ہم سے... کیسے ہو؟
کیا کِیا کرتے ہو؟
کیسی گزر رہی ہے؟


ایسے میں نہ میسّر آئے کوئی، تو خود هى پوچھ دیکھنا چاہیے خود سے کہ کیسے ہو ؟
کیا کِیا کرتے ہو ؟
کیسی گزر رہی ہے ؟
شرط بس یہ ہے کہ کم از کم خود کو تو جواب ایمانداری سے دیا جائے کہ کیسے ہیں...
کیا کِیا کرتے ہیں
اور کیسی گزر رہی ہے...


بس خود کو بھی جواب ایمانداری سے دے دیا تو سمجھو اطمینانِ قلب یقینی ہے...


كيونكه جب ایمانداری ىسے خود كو دے ليا جواب، تو سمجهو كہ خود میں جہاں بهى كہيں خرابى هوئى اس كى درستگى كا عمل خود بخود شروع هو جائے گا،
اور اسى میں صحيح اطمینانِ قلب هے.

Sunday, November 03, 2013

وقت

وقت کو پر نہیں لگتے بلکہ بعض دفعہ وقت بالکل رُک بھی جاتا ہے ۔ اس کی تیز رفتاری ہی صبر آزماء نہیں ہوتی ، بعض دفعہ اس کی سست روی بھی تکلیف دہ ہوتی ہے .

بعض دفعہ خاموشی وجود پر نہیں دل پر اترتی ہے

بعض دفعہ خاموشی وجود پر نہیں دل پر اترتی ہے پھر اس سے زیادہ مکمل، خوبصورت اور بامعنی گفتگو کوئی اور چیز نہیں کر سکتی اور یہ گفتگو انسان کی ساری زندگی کا حاصل ہوتی ہے اور اس گفتگو کے بعد ایک دوسرے سے کبھی دوبارہ کچھ کہنا نہیں پڑتا ۔ ۔ ۔ کچھ کہنے کی ضرورت رہتی ہی نہیں ۔ ۔ ۔

منزلوں کو پا لینا کتنی بڑی قیامت ہے۔

منزلوں کو پا لینا کتنی بڑی قیامت ہے۔ سب کچھ بے معنی ہو کر رہ جاتا ہے۔ خود منزل بھی۔ مجھے ایسے لگتا ہے جسے طلب سے عظیم تر کوئی منزل نہیں۔ طلب اور جدوجہد۔ شاہد یہ بشریت کا تقاضا ہو۔

طوفان

زندگی میں آنے والا ہر امتحان ایک طوفان ہی ہوتا ہے
اور طوفان سے گزارش نہیں کی جاتی .....
کیونکہ وہ بن بلائے آتے ہیں، ان کا سامنا کیا جاتا ہے-

احساس

: احساس
=====
"اللہ نے ہمارے اندر احساس نام کا یہ جو جذبہ رکھا ہے یہ ہمیں کسی کروٹ چین نہیں لینے دیتا، اک آس ٹوٹتی ہے تو دوسری جنم لے لیتی ہے۔"

ایک لمحہ

کچھ لوگوں کے ساتھ عمر بھر رہ لو، لمحے بھر کیلئے بھی یاد نہیں آئیں گے۔ اور کچھ لوگوں کے ساتھ ایک لمحہ گزار لو، ساری عمر یاد آتے رہیں گے۔ دل بھی کیا عجب پاگل شئے ہے کہ یادیں گزری مدت اور عرصے کی وجہ سے نہیں، روا رکھے گئے برتاؤ کی وجہ سے محفوظ رکھتا ہے

محبّتیں اور بھیک

محبّتیں بھیک میں نہیں ملا کرتیں کہ آدمی کشکول لے کر درِ یار پر دھونی مار کر بیٹھ جائے، بات نصیب اور دینے والے کی مرضی پر منحصر ھوتی ھے، کبھی کبھی چند بوندیں سیراب کردیتی ھیں اور کبھی ساون بھی ناکافی ھوتا ھے، کبھی نارسائی کے دشت میں بھٹکتے عمریں بیت جاتی ھیں ، پیاس سوا ھونے لگتی ھے ،حلق میں کانٹے اگ آتے ھیں،ھجر کے سول روح چھلنی کر دیتے ھیں،اور کبھی چند قدموں کی مسافت در استجاب وا کر دیتی ھے اور تن من وصل کی بارش میں بھیگ جاتا ھے

کھڑکیاں

کھڑکیاں :
=====

دُنیا کا کوئی دروازہ نہیں ہوتا ۔ جسِے کھول کر ہم اِس سے باہر نکل جائیں ۔ دُنیا کی صرف کھڑکیاں ہوتی ہیں ۔ جن سے ہم باہر جھانک سکتے ہیں ۔ بعض دفعہ یہ کھڑکیاں دُنیا سے باہر و اندر کے منظر دکھاتی ہیں مگر رہائی اور فرار میں کبھی مدد نہیں دیتیں۔۔

چیزیں حیثیت نہیں رکھتیں

چیزیں حیثیت نہیں رکھتیں، انسان بھی نہیں رکھتے، اہم ہوتے ہیں رشتے جب ہم سے چیزیں چھین لی جائیں تو دل ڈوب، ڈوب کے ابھرتا ہے مگر جب رشتے کھو جائیں تو دل ایسا ڈوبتا ہے کہ ابھر نہیں سکتا، سانس تک رک جاتی ہے پھر زندگی میں کچھ اچھا نہیں لگتا۔

مشکلیں

شادی کے بعد کچھ نہیں بدلتا -
صرف اپ کے نام کے ساتھ ایک اور نام جوڑ جاتا ہے -
یا پھر اپ کی ذمداروں میں کچھ اور اضافہ  ہو جاتا ہے -
زندگی میں آسانیاں نہیں بلکے  اور زادہ   مشکلیں  بھڑ  جاتی ہے -

وعدے

: وعدے 
======
انسان ساری زندگی وعدے کرنے اور وعدے نبھانے کی زنجیر ہی سے بندھا رہتا ہے اور شاید ہم دوسروں سے کیے وعدے تو نبھا لیتے ہیں ، مگر اپنے آپ سے کیے وعدے سدا وفا ہونے کا انتظار ہی کرتے رہتے ہیں

غم

غم ہی وہ طلسم ہے جس سے عطار، رومی ، رازی ، غزالی ، اقبال پیدا ہوتے ہیں۔غم ذاتی ہو تو بھی اِسکی تاثیر کائناتی ہوتی ہے۔
غم کمزور انسان کو کھا جاتا ہے
اور طاقتور آدمی کو بنا جاتا ہے۔۔

بعض صورتیں دل میں اتر جاتی ہیں


بعض صورتیں دل میں اتر جاتی ہیں- بعض دل سے اتر جاتی ہیں- دل میں اترنے اور دل سے اترنے میں بظاھر اک لفظ کا ہیر پھیر ہے لیکن اس کا اثر , اس کا دائرہ عمل، اس کا تسلط کتنا وسیع، کتنا گھمبیر اور کیسا انوکھا ہے