Saturday, August 30, 2014

جامع مسجد قرطبہ - Spain

اے حرم قرطبہ ! عشق سے تیرا وجود
عشق سراپا دوام جس میں نہیں رفت و بود
تیرا جلال و جمال مرد خدا کی دلیل
وہ بھی جلیل و جمیل ، تو بھی جلیل و جمیل
اقبال کی شہرہ آفاق نظم مسجد قرطبہ میں انہوں نے اس مسجد کی جو تصویر کھینچی ہے وہ دل کو چھو لینے والی اور ساتھ ہی دل کو چیر دینے والی ہے ۔ اقبال وہ پہلے شحض ہیں جنہوں نے کئی صدیوں بعد 1931ء میں اس مسجد میں اذان دینے اور نماز ادا کرنے کا شرف حاصل کیا۔
یوں تو سر زمین اندلس پر مسلمانوں کے عہد زریں میں بہت سی دلکش و دلفریب عمارات تعمیر ہوئیں لیکن جو نفاست اور پاکیزگی جامع مسجد قرطبہ کے حصہ میں آئی وہ نہ تو الفاظ میں بیان کی جا سکتی ہے اور نہ ہی کسی اور ذریعہ اظہار سے اس کے حسن و جمال ، تزئین و آرائش ، نسخی گل کاریوں اور پچی کاریوں کی تفصیل پیش کی جا سکتی ہے ۔ وہ ایسی چیز تھی جودیکھنے کی چیز تھی اور بار بار دیکھنے کی چیز تھی۔ اگرچہ گردش ایام کے تھپیڑوں نے اسے آج کچھ کا کچھ بنا دیا ہے لیکن پھر بھی اس کے حسن و خوبی اور جدت تعمیر و ندرت آرائش کے جو آثار زمانہ کی دستبرد سے بچ سکے ہیں اب بھی اپنے شاندار ماضی کی داستان زبان حال سے سناتے نظر آتے ہیں۔



اس مسجد کی تعمیر کا خیال امیر عبدالرحمن اول المعروف الداخل (756-788) کو سب سے پہلے اس وقت دامن گیر ہوا جب اس نے ایک طرف اندرونی شورشوں پر قابو پا لیا اور دوسری طرف بیرونی خطرات کے سد باب کا بھی مناسب بندوبست کر دیا۔ اس نے اپنی وفات سے صرف دو سال پہلے یہ کام شروع کرایا۔ امیر چاہتا تھا کہ مسجد کو اموی جامع مسجد دمشق کا ہم پلہ بنا کر اہل اندلس و مغرب کو ایک نیا مرکز عطا کرے ۔ یہی وجہ تھی کی اس کی تعمیر کی نگرانی اس نے خود کی۔
المنقب میں نصب عبدالرحمن اول کا مجسمہ

یہ عظیم مسجد وادی الکبیر (ہسپانوی: Guadalquivir)میں دریا پر بنائے گئے قدیم ترین پل(اس پل کو رومی Claudius Marcellus نے تعمیر کروایا تھا) کے قریب اس جگہ واقع ہے جہاں پہلے سینٹ ونسنٹ (St. Vincent of Saragossa) کی یاد میں تعمیر کردہ ایک گرجا قائم تھا اور جس کا ایک حصہ پہلے ہی سے بطور مسجد مسلمانوں کے زیر تصرف تھا (الرازی)۔ السمح بن مالک الخولانی کے عہد میں جب قرطبہ دارالسلطنت بنا تو مسلمانوں نے مسجد کی توسیع کے لئے عیسائیوں سے باقی ماندہ حصہ خریدنے کی خواہش ظاہر کی مگر وہ مسلمانوں کی تمام تر رواداری کے باوجود اسے فروخت کرنے پر تیار نہ ہوئے ۔ لیکن جبعبدالرحمن الداخل کا زمانہ آیا تو اس نے بہت بھاری قیمت ادا کرکے پورا گرجا خریدلیا۔ قبضہ حاصل کرلینے کے بعد 786ء میں امیر نے اسے گرا کر اس کی جگہ ایک دیدہ زیب مسجد کی دیواریں کھڑی کر دیں۔ تعمیر کا کام جس ذوق و شوق سے شروع ہوا اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ امیر نے دو سال کی قلیل مدت میں اس مسجد کی تعمیر پر 80ہزار دینار خرچ کر دئے ۔
مسجد کی بیرونی چار دیواری اتنی بلند و بالا اور مضبوط تھی کہ وہ شہر کی فصیل نظر آتی تھی ۔ اس فصیل نما چاردیواری کو مزید مضبوط کرنے کے لئے اس کے باہر کی جانب تھوڑے تھوڑے فاصلوں پر پہل پشتیبان (Buttressess) بنائے گئے تھے جن پرکنگرے بنے ہوئے تھے۔

مسجد کی چھت بے شمار ستونوں پر قائم ہے جن کی ترتیب کچھ اس وضع پر ہے کہ ان کے تقاطع سے دونوں طرف کثرت سے متوازی راستے بن گئے ہیں ۔ ان ستونوں پر نہایت ہی پر تکلف نعلی محرابیں (Horseshoe Arches) قائم ہیں۔ یہ نعلی محرابیں نہ صرف اس عظیم مسجد کا وجہ امتیاز ہیں بلکہ ہسپانوی طرز تعمیر کی پہچان بن چکی ہیں ۔ جامع قرطبہ کے ان ستونوں پر دوہری محرابیں بنی ہوئی ہیں ۔ یعنی ایک محراب پر دوسری قائم کر کے انہیں چھت سے ملا دیا گیا ہے ۔ ان محرابوں پر کہیں کہیں قبےّ بنائے گئے تھے جن میں سے چند ایک ابھی تک باقی ہیں ۔ چھت زمین سے تیس فٹ کے قریب بلند تھی ۔ جس کی وجہ سے مسجد میں ہوا اور روشنی کا حصول آسان ہو گیا تھا۔ چھت پر دو سو اسی جگمگاتے ستارے بنائے گئے تھے ۔ جن میں سے اندرونی دالان کے ستارے خالص چاندی کے تھے ۔ اس کے علاوہ چھت مختلف چوبی پٹیوں (Panells) سے آراستہ تھی۔ ہر پٹی پر نقش ونگار کا انداز محتلف تھا ۔ مسجد کے وسط میں تانبے کا ایک بہت بڑا جھاڑ معلق تھا جس میں بیک وقت ہزار چراغ جلتے تھے۔ خاص دالان کے دروازہ پر سونے کا کام کیا گیا تھا۔ جبکہ محراب اور اس سے متصل دیوار سونے کی تھی ۔ سنگ مر مر کے ستونوں پر سونے کے کام سے ان کی تزئین و آرائش کا کام نہایت نفاست سے کیا گیا تھا۔
عبد الرحمن الداخل کے بعد امیر ہشام اول (788-796)مسند امارت پر متمکن ہوا ۔ اس نے بھی اس مسجد کی تعمیر و توسیع کا کام جاری رکھا ۔ اس نے تو اپنے دور حکومت کے سات سالوں میں تمام مال غنیمت کا پانچواں حصہ مسجد کی تعمیر پر خرچ کیا۔ اس عظیم الشان مسجد کا وہ عظیم مینار جو چہار پہلو تھا اسی کے زمانے میں تعمیر ہوا۔ اس مینار کا شمار عجائبات عالم میں ہوتا تھا۔
حقیقت تو یہ ہے کہ اس یکتائے زمانہ مسجد کی تکمیل پر ماہ و سال نہیں صدیاں خرچ ہوئیں ۔ ہر امیر نے اپنی بساط اور ذوق کے مطابق اس پر بے دریغ خرچ کیا۔ ہزاروں مزدوروں نے سینکڑوں معماروں کی معیت میں اس مسجد کی تعمیر و آرائش پر اپنا خون پسینہ ایک کیا تب جا کر اسے وہ مقام حاصل ہوا جو بہت کم عمارتوں کو حاصل ہے ۔
ذیل میں اس مسجد کے بعض اہم حصوں پر الگ الگ روشنی ڈالی گئی ہے ۔

اندلس (Spain) میں مسلمانوں کے فن تعمیر کا عرصہ تقریباً سات سو برس پر محیط ہے ۔ جو آٹھویں صدی عیسوی میں جامع قرطبہ (ہسپانوی: Mezquita) کی تعمیر شروع کئے جانے سے لے کر پندرھویں صدی عیسوی میں غرناطہ کے قصر الحمراء کے مکمل ہونے کے زمانہ پر پھیلا ہوا ہے ۔ اس دوران سینکڑوں عمارات مثلاً حمام ، محلات ، مساجد، مقابر ، درس گاہیں اور پل وغیرہ تعمیر ہوئے جن کی اگر تفصیل لکھی جائے تو ایک ضخیم کتاب بن جائے ۔
اندلس میں مسلمانوں کے فن تعمیر کا مطالعہ کرتے ہوئے یہ بات ذہن نشین رہنی چاہئے کہ یہاں کے مسلمان حکمران اور عوام کی اکثریت پرانی ثقافت کی کورانہ تقلید کے قائل نہیں تھے ۔ بلکہ یہاں ایک نئی تہذیب نے جنم لیا تھا اور اس کے نتیجہ میں ایک نیا معاشرہ وجود میں آیا تھا۔ اس نئی تہذیب کے آثار ان کی تعمیر ات کے ہر انداز سے جھلکتے نظر آتے ہیں ۔
عرب فاتحین کا یہ قاعدہ رہا تھا کہ وہ جہاں کہیں فاتح بن کر جاتے وہاں کی علاقائی تہذیب و ثقافت کو اپنا لیتے اور اپنی تعمیرات میں اس علاقہ کی طرز تعمیر کے خدو خال کو شامل کر لیتے ۔ چنانچہ سندھ سے لے کر مراکش تک کی تعمیرات میں عربوں کی یہ خصوصیت واضح طور پر جلوہ گر نظر آتی ہے۔ لیکن اندلس میں انہوں نے یکسر ایک نیا رویہ اپنایا اور ایک ایسی نئی طرز تعمیر کے موجد بنے جس میں عرب، ہسپانوی (Visigothic)، صیہونی، اور اندلس کی دیگر اقوام کی خصوصیات یکجا نظر آتی ہیں۔ ہم یہاں پر اسی طرز تعمیر کی زندہ مثال جامع مسجد قرطبہ کا ذکر کرنے جا رہے ہیں۔ اس مسجد کی طرز تعمیر میں قدیم اسلامی طرز تعمیر صیہونی اور عیسائی طرز تعمیر کے پہلو بہ پہلو ایک نئے امتزاج کے ساتھ ملتا ہے۔
مسجد قرطبہ میں عبادت کی اجازت
دسمبر 2006ء میں اسپین کے مسلمانوں نے پوپ بینیڈکٹ سے اپیل کی کہ انہیں مسجد قرطبہ میں عبادت کی اجازت دی جائے۔ اسپین کے اسلامک بورڈ نے پوپ کے نام خط میں لکھا ہے کہ سپین کے کلیسا نے ان کی درخواست مستردکردی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ مقدس جگہ کی حوالگی کی درخواست نہیں بلکہ وہ تمام مذاہب کے ساتھ مل کر عبادت کر کے عیسائی دنیا میں ایک اچھوتی مثال قائم کرنا چاہتے ہیں۔ دسمبر 2006ء کے اوائل میں ہسپانوی کیتھولک چرچ نے مسلمانوں کو جامع قرطبہ میں نماز کی اجازت دینے سے انکار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہم اس عبادت گاہ میں مشترکہ عبادت کیلئے دیگر مذاہب سے بات چیت کیلئے تیار نہیں۔ مسلم بورڈ کے جنرل سیکرٹری منصور ایکسڈیرو کے مطابق قبل ازیں سیکورٹی گارڈز نے اندرونی حصے میں پرانی مسجد میں مسلمانوں کو نماز کی ادائیگی سے روک دیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ رومن کیتھولک چرچ کے بعض عناصر اسپین میں مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی آبادی سے خطرہ محسوس کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ گرجا جو دنیا بھر میں مسجد کے طور پر جانا جاتا ہے اور اسے دیکھنے کیلئے دنیا بھر کے مسلمان یہاں آتے ہیں۔


2010 incident 

In April 2010, two Muslim tourists were arrested at the Cathedral, after an incident in which two security guards were seriously injured. The incident occurred when the building was filled with tourists visiting the cathedral during Holy Week.[25][26]
According to cathedral authorities, when half a dozen Austrian Muslims, who were part of a group of 118 people on an organized tour for young European Muslims, knelt to pray at the same time, security guards stepped in and “invited them to continue with their tour or leave the building”.[25][26] A fight took place between two of the tourists and the security guards. The security guards suffered serious injuries and had to be hospitalized and two Muslim men were detained.[25][26][27]






No comments:

Post a Comment