Wednesday, August 12, 2015

کسا ہے جھوٹ کا پھندا گلے میں

سمندر کا تماشا کر رہا ہوں
میں ساحل ہو کے پیاسا مر رہا ہوں

اگرچہ دل میں صحرا کی تپش ہے
مگر میں ڈُوبنے سے ڈر رہا ہوں

میں اپنے گھر کی ہر شے کو جلا کر
شبستانوں کو روشن کر رہا ہوں

قفس میں مجھ پہ جو بیتی سو بیتی
چمن میں بھی شکستہ پر رہا ہوں

اُٹھے گا حشر کیا محشر میں مجھ پر
میں خود ہنگامہِ محشر رہا ہوں

کسا ہے جھوٹ کا پھندا گلے میں
میں سچائی کی خاطر مر رہا ہوں

وہی پتھر لگا ہے میرے سر پر
میں جس پتھر کو سجدے کر رہا ہوں

مری گردش میں ہر سازِ الم ہے
جہانِ درد کا محور رہا ہوں

بنائی جو مرے دستِ ہنر نے
اُسی تصویر سے اب ڈر رہا ہوں

تراشے شہر میں نے بخش کیا کیا
مگر میں خود سدا بے گھر رہا ہوں

بخش لائلپوری​

No comments:

Post a Comment