Saturday, August 08, 2015

امجد اسلام امجد

محبت زندگی ہے محبت جب دبے پاؤں کسی دل کی طرف آئے بہت آہستگی سے اُس کے دروازے پہ دستک دے تو اُس دستک کے جادُو سے دَرودیوار کی رنگت بس اِک پَل میں بدلتی ہے فضا کی نغمگی اِک اجنبی خوشبو میں ڈھلتی ہے تو پھر کچھ ایسا ہوتا ہے اسی لمحے کی جھلمل میں بہت ہی سرسری سے اِک تعلق کی ہَوا ایک دم کسی آندھی کی صُورت ہر طرف لہرانے لگتی ہے وہ اک لمحہ، زمانوں پر کچھ ایسے پھیل جاتا ہے کہ کوئی حدّ نہیں رہتی یہ کُھلتا ہے محبت زندگی کا ایک رستہ ہی نہیں منزل نشاں بھی ہے یقینوں سے جو افضل ہو یہ اک ایسا گماں بھی ہے یہ ایسا موڑ ہے جس پر سفر خود ناز کرتا ہے اِک ایسا بیج ہے جو زندگی میں"زندگی" تخلیق کرتا ہے اُسے تعمیر کرتا اور نئے مفہوم دیتا ہے بتاتا ہے "محبت زندگی ہے اور جب یہ زندگی دِن رات کی تفریق سے آزاد ہو جائے تو ماہ و سال کی گِنتی کے وہ معنی نہیں رہتے جو اَب تک تھے" سِمٹ جاتے ہیں سب رشتے اک ایسے سلسلے کی خوش نگاہی میں کہ اک دوجے کی آنکھوں میں ہُمکتے خواب بھی ہم دیکھ سکتے ہیں جہاں ہم سانس لیتے ہیں اور جن کی نیلگوں چادر کے دامن میں ہمارے "ہست" کا پیکر سنورتا ہے وہ صدیوں کے پُرانے، آشنا اور اَن بنے منظر کئی رنگوں میں ڈھلتے، خوشبوؤں کی لہر میں تحلیل ہوتے ہیں زمیں چہرہ بدلتی ہے، آسماں تبدیل ہوتے ہیں محبت بھی وفا صورت کسی قانون اور کُلیئے کے سانچے میں نہیں ڈھلتی کہ یہ بھی انگلیوں کے ان نشانوں کی طرح سے ہے کہ جو ہر ہاتھ میں ہو کر بھی آپس میں نہیں ملتے یہ ایسی روشنی ہے جس کے اربوں رُوپ ہیں لیکن جسے دیکھو وہ یکتا ہے نہ کوئی مختلف اِن میں نہ کوئی ایک جیسا ہے محبت استعارا بھی، محبت زندگی بھی ہے ازل کا نور ہے اس میں، اَبد کی تیرگی بھی ہے اِسی میں بھید ہیں سارے، اِسی میں آگہی بھی ہے

 امجد اسلام امجد

No comments:

Post a Comment